غموں سے نہ گھبراو، حسین وارث ہیں
علمِ عباس اُٹھاؤ، حسین وارث ہیں
ساری دنیا نے اگر ٹھکرا دیا ہے تم کو
دَرِ عباس پر آؤ، حسین وارث ہیں
یہ وہ کریم ہیں، خالی نہیں لوٹایں گے
اپنا دُکھ تو سناؤ، حسین وارث ہیں
کیا سوال جو اللہ سے، میں نے جنت کا
صدا یہ آئی کہ جاؤ، حسین وارث ہیں
یزیدیت جو تیرے سامنے کبھی آئے
تم اپنا سر نہ جھکاؤ حسین وارث ہے
صدا یہ آتی ہے کرب و بلاکی دھرتی سے
وفا کے دیپ جلاؤ حسین وارث ہے
عشق شبیر کا دعوہ ہے گر تمہیں گلزیب
تو کربلا نہ بھلاؤ حسین وارث ہے
Post A Comment:
0 comments so far,add yours