نہ دن اچھا گزرے نہ رات راس آئے مجھے
ان دنوں یہ کیا ہو گیا ہے ہائے مجھے

اک ضبط ہے جو رہ رہ کے ہاتھ چھوڑے میرا
اک درد ہے جو اٹھ اٹھ کے منہ دکھائے مجھے

عجب حال کہ میں جتنا تجھے بھلانا چاہوں
بچھڑنے والے تو اتنا ہی یاد آئے مجھے

مجھے تو منانے میں کوئی حرج نہیں لیکن یار
دل کی ضد ہے کہ اب کی بار تو منائے مجھے

عشق زندگی ہے تو میں اسے جینا چاہوں
عشق موت ہے تو بسم اللّٰہ آ جائے مجھے

میں بات بات پہ دلائل دینے والا شخص
آج الجھ گیا ہوں کوئی ہے جو سلجھائے مجھے

اب تو اک ہی تمنا ہے تیرے دیوانے کی
عشق انتہا کو پہنچے گلی گلی میں نچائے مجھے

کیا بتاؤں کہ وہ پورے اطمینان سے سونے والا
مجھ میں پہرا دے رات بھر جگائے مجھے

میں جن کے واسطے زمانے کو ٹھکراتا رہا
جاوید افسوس آج وہ بھی نہ مل پائے مجھے
جاوید مہدی


Share To:

Shafique Khokhar

Post A Comment: