دل کو فرصت ہو ذرا صدموں سے
جا نکل جا تو مرے خوابوں سے
رنگ سے، موسموں سے، خوشبو سے
اب نہ بنتی ہے حسیں چہروں سے
جب سے تنہائی مری محفل ہے
پردے اٹھنے لگے ہیں رازوں سے
رات بھی رک گئی تھی سننے کو
گفتگو تھی مری سناٹوں سے
اس لئے بھا گئے اندھیرے ہیں
سایہ تک بھاگتا ہے سایوں سے
روز سورج کی ہمیں پہلی کرن
ڈھونڈہ لاتی ہے گلی کوچوں سے
زمیں کو آسماں سے جب دیکھا
تب سے تائب ہوں میں پروازوں سے
بھلا ان راستوں پہ کیا جانا
جن کو وحشت ہے مرے قدموں سے
جس پہ گزرے گی وہی سمجھے گا
کب سبق لیتا کوئی قصوں سے
وقت کا ساز ہے لازم عامر
کون سیکھا ہے فقط لفظوں سے
Post A Comment: