کوئی کر کے اقرارِ عشق آزاد ہوجائے 
مُحبت بھی کبھی وجۂ فساد ہوجائے

بے سبب عادتاً کریں لوگ بے وفائی
یہ جہاں جفا گروں سے آباد ہوجائے

خود کو اُجاڑ ، بنا دے زندگی کوئی 
کوئی چاہے ، ہر کوئی برباد ہوجائے

اپنے مٹ گئے میرا ہُنر مٹاتے مٹاتے
غیروں کے لئے کیوں نہ داد ہوجائے

ہارے جیتی ہوئی بازی یہ سوچ کر
دل میرے دُشمن کا بھی شاد ہوجائے

بیاں تاثیرِ دوائے مُحبت ، مُمکن نہیں 
یہ شفا دے جب بعد اَز معیاد ہوجائے

زندگی گُذاری سب سے لڑتے ، کبیر
اب اپنے نفس کے خلاف جہاد ہوجائے .


Share To:

Shafique Khokhar

Post A Comment: