اے رشک ِ گل انداماں ، اے پیکر ِ رعنائی
تتلی تری دیوانی ، بلبل ترا شیدائی
تُو حسن کی دیوی ہے ، یا روپ کی شہزادی
پُنّوں ترے پروانے ، سسیاں تری سودائی!
تو ناز ِ غزالاں ہے ، یا جان ِ بہاراں ہے؟
لیلٰی بھی تری خواہاں ، مجنوں بھی تمنائی !
رانجھے بھی ترے نوکر ، ہیریں بھی تری چاکر
مہینوال بھرے پانی ، سسی کرے ستھرائی
ہم نے تری الفت میں ، اشعار جونہی لکھے
فرہاد نے سنگت کی ، شیریں نے غزل گائی
کیا مہر و مہ و انجم ، کیا برگ و گل و لالہ
سب تیری بلائیں لیں ، اے موجہء زیبائی
تو خلد سے آئی ہے؟ کُوہ قاف میں رہتی ہے؟
حوروں سے تری یاری ، پریوں سے شناسائی
رنگین ترا آنچل ، بانہوں میں جو لہرایا
جھٹ قوس ِ قزخ آئی ، تعظیم بجا لائی
ہر پھول ترے صدقے ، ہرشاخ ترے قرباں
ہر گوشہء گلشن میں ، ہے تیری پذیرائی
آنکھیں تری بادامی ، اور چال ہے مستانی
آہوئے حرم ہے تُو ، یا ناقہء صحرائی
کس حسن کے سانچے میں ، رب نے تجھے ڈھالا ہے
نظّارہ کرے گل بھی ، بھونرا بھی تماشائی
ہم بھی ہیں ترے طالب ، بخش ایک نظر گاہے
اے مست ِ مےء ہستی ، اے محو ِ خود آرائی
آواز تری سن کر ، جان آئے مری جاں میں
ہے تیرے تکلم میں ، تاثیر ِ مسیحائی
تو مکتب ِ خوباں ہے ، جاری ہے ترا فیضاں
پھولوں نے ادا سیکھی ، کلیوں نے حیا پائی
جس نے تجھے دیکھا ہے ، میں دیکھتا ہوں اُس کو
لگتا ہے کہ آنکھوں میں ، تصویر اُتر آئی
شمعیں بھی جلائی ہیں ، کلیاں بھی سنواری ہیں
اے جان ِ غزل آ جا ، دیکھ انجمن آرائی
ہر چند کہ دل چاہے ، باتیں میں کروں تجھ سے
پر تیرے حضور اپنی ، ہوتی نہیں شنوائ
تیرے ہی لئے کی ہے ، ناصر نے یہ گلکاری
کچھ قافیہ پیمائی ، کچھ حاشیہ آرائی
Post A Comment: