تَحتِ امکان سے چلے جائیں
ٹھاٹھ سے، شان سے چلے جائیں

آپ کی جان پر نہیں بننی
چاہے ہم جان سے چلے جائیں

دیکھ لیں! کتنے کام باقی ہیں!
آپ اب دھیان، سے چلے جائیں!

جائیں اب روکنا نہیں ہم نے
ہاں جی! ایمان سے! چلے جائیں!

آپ رہنے دیں بس مجھے گمنام
میری پہچان سے چلے جائیں

دل بَجُز کیا ہے قید خانے کے
ایسے زندان سے چلے جائیں

ہو نہ جائے گماں خفا مجھ سے
میرے ایقان سے چلے جائیں

سچ بتاؤں تو میرے سارے غم
تیری مسکان سے چلے جائیں

کاٹ کھاتی ہے زین جی الجھن
جب وہ حیران سے چلے جائیں

زین شکیل

RJ Shafique Khokhar

Share To:

Shafique Khokhar

Post A Comment: