سارے لہجے تیرے ، بے زباں ایک مَیں !
اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک مَیں
وصل کے شہر کی روشنی ایک تو
ہجر کے دشت میں کارواں ایک مَیں
بجلیوں سے بھری بارشیں زور پر
اپنی بستی میں کچا مکاں ایک مَیں
حسرتوں سے اَٹے آسماں کے تلے !
جلتی بجھتی ہوئی کہکشاں ایک مَیں
مجھہ کو فارغ دنوں کی امانت سمجھ !
بھولی بسری ہوئی داستاں ایک مَیں
رونقیں ، شور ، میلے جھمیلے تیرے !
اپنی تنہائی کا رازداں ایک مَیں
ایک میں اپنی ہی زندگی کا بھرم
اپنی ہی موت پر نوحہ خواں ایک مَیں
اُس طرف سنگباری ہر اک بام سے
اِس طرف آئینوں کی دُکاں ایک مَیں
وہ نہیں ہے تو محسؔن یہ مت سوچنا
اَب بھٹکتا پھروں گا کہاں ایک میں ¿
Post A Comment: