شبِ تاریک میں کچھ دیپ جلائے ہوتے
کاش ہم نے بھی کوئی فرض نبھائے ہوتے
کتنا آساں ہے یوں لوگوں سے شکایت رکھنا
اپنے کاندھوں پہ سبھی بوجھ اٹھائے ہوتے
ہم کہ چپ چاپ جھکے سامنے جو بت آیا
حق تو یہ تھا کہ وہ بت ہم نے گرائے ہوتے
اپنے انجام پہ ہم کو بھی فخر ہونا تھا
دل گمانوں کی اگر زد میں نہ آئے ہوتے
مانا نفرت کا تو ہے کام فنا کر دینا
اجڑے کچھ شہر محبت نے بسائے ہوتے
جب تھا معلوم جہاں توڑ کے رکھ دیتا ہے
اپنے کچھ خواب زمانے سے بچائے ہوتے
ایسی بے رنگ نہ ہوتی کبھی محفل اپنی
روٹھے کچھ لوگ اگر خود ہی منائے ہوتے
جان لے لیتے اسے شہر بدر کر دیتے
سب ستم خود نہ اگر خود پہ یہ ڈھائے ہوتے
وقت کی دھوپ نے سب یاد کرائے اپنے
ساتھ ہوتے تو وہ بادل بنے چھائے ہوتے
آج دنیا ہے مری پھر بھی یوں لگتا ابرک
ہم وہ مہماں ہیں جو بے وقت ہیں آئے ہوتے
اتباف ابرک

Post A Comment: